غزہ: سرکاری میڈیا آفس کے مطابق اسرائیلی فوج غزہ جنگ کے دوران محصور پٹی سے ہزاروں فلسطینیوں کی لاشیں بھی چرا کر لے گئی۔
یہ اعداد و شمار غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کی ہولناکی اور انسانی المیے کی شدت کو واضح کرتے ہیں۔ جنگ کے 470 دنوں کے دوران ہونے والی تباہی اور انسانی جانوں کا نقصان ایک دردناک حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے، جو کسی بھی انسان کے دل کو دہلا دینے کے لیے کافی ہے۔
انسانی جانوں کا نقصان
اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں تقریباً 47 ہزار افراد ہلاک ہوئے، جن میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی تھی۔ 17 ہزار سے زائد معصوم بچے اور 12 ہزار خواتین اس جنگ میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مزید یہ کہ 2 ہزار سے زائد خاندان مکمل طور پر ختم ہوگئے، اور ہزاروں خاندانوں میں صرف ایک فرد ہی زندہ بچ سکا۔
بچوں پر اثرات
جنگ کے دوران 808 بچے ایک سال کی عمر سے پہلے ہی شہید ہوگئے، اور 44 بچے خوراک کی قلت کا شکار ہو کر اپنی جان گنوا بیٹھے۔ ان میں سے کچھ بچے تو اسی جنگ کے دوران پیدا ہوئے تھے، اور انہیں زندگی کی روشنی دیکھنے کا موقع بھی نہیں ملا۔
زخمیوں کی حالت
زخمیوں کی تعداد بھی ایک المناک حقیقت ہے، جہاں 1 لاکھ 10 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے، اور ان میں سے 15 ہزار کو طویل علاج کی ضرورت ہے۔ 4 ہزار 500 افراد اپنے جسم کے کسی نہ کسی عضو سے محروم ہوگئے، جن میں بڑی تعداد بچوں کی تھی۔
تعلیمی نظام کی تباہی
اسرائیلی جارحیت نے غزہ کے تعلیمی نظام کو بھی نشانہ بنایا۔ ہزاروں طلبہ اور اساتذہ شہید ہوئے، جبکہ سینکڑوں اسکول اور یونیورسٹیاں مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہو گئیں، جس سے لاکھوں طلبہ تعلیم سے محروم ہوگئے۔
عبادت گاہوں اور رہائشی علاقوں پر حملے
مساجد، گرجا گھر، اور رہائشی عمارتیں بھی اس جنگ کا شکار ہوئیں۔ سینکڑوں مساجد تباہ ہوگئیں، اور ہزاروں رہائشی یونٹس ناقابلِ رہائش بن گئے۔
اجتماعی نقصان
یہ جنگ صرف اعداد و شمار کی شکل میں نہیں، بلکہ لاکھوں افراد کی زندگیوں میں ناقابلِ فراموش زخم چھوڑ چکی ہے۔ ہزاروں بچے یتیم، خواتین بیوہ، اور خاندان بے گھر ہو گئے ہیں، جو اس انسانی بحران کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔
نتیجہ
یہ اعداد و شمار عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور دنیا کے رہنماؤں کو اس المیے کا نوٹس لینا چاہیے اور فلسطینی عوام کو اس ظلم سے بچانے کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہییں۔